آج بھی پریمؔ کے اور کرشنؔ کے افسانے ہیں
آج بھی وقت کی جمہوری زباں ہے اردو
عطا عابدی
ادب ہی زندگی میں جب نہ آیا
ادب میں اتنی محنت کس لئے ہے
عطا عابدی
خواب ہی خواب کی تعبیر ہوا تو جانا
زندگی کیوں کسی آنکھوں کے اثر میں آئی
عطا عابدی
کسی کے جسم و جاں چھلنی کسی کے بال و پر ٹوٹے
جلی شاخوں پہ یوں لٹکے کبوتر دیکھ آیا ہوں
عطا عابدی
کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے
کہ دنیا جلد لوٹے گی سفر سے
عطا عابدی
سب خواب پرانے ہیں ہر چند فسانے ہیں
ہم روز بساتے ہیں آنکھوں میں نئی دنیا
عطا عابدی
صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ سنبھالوں پانی
عطا عابدی
ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ
یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے
عطا عابدی