EN हिंदी
پس دیوار حجت کس لئے ہے | شیح شیری
pas-e-diwar hujjat kis liye hai

غزل

پس دیوار حجت کس لئے ہے

عطا عابدی

;

پس دیوار حجت کس لئے ہے
دریچے سے یہ وحشت کس لئے ہے

نہ میں اپنا نہ میں تیرا ہوں دنیا
تو پھر جینے کی حسرت کس لئے ہے

اگر سود و زیاں کے ہم ہیں قائل
جنوں سے اپنی قربت کس لئے ہے

جفا ہی جب تری پہچان ٹھہری
وفا میں مجھ کو لذت کس لئے ہے

مری آنکھوں پہ جو پہرہ ہے تیرا
تو آئینے سے رغبت کس لئے ہے

خود اپنے گھر میں ہے جب اجنبی تو
مرے بھائی یہ شہرت کس لئے ہے

سفر میں جب نہ تیرے کام آئے
ذرا یہ سوچ دولت کس لئے ہے

ادب ہی زندگی میں جب نہ آیا
ادب میں اتنی محنت کس لئے ہے

نکل آئے ہیں دیواروں پہ چہرے
تصور کی یہ جدت کس لئے ہے

مرا آئینہ ہے جب تیرا چہرہ
تو پھر دنیا کی حیرت کس لئے ہے

خموشی ہے جواب جاہلاں جب
زباں جیسی یہ نعمت کس لئے ہے

ہے دنیا کا جواز اس امر ہی میں
جہنم کیوں ہے جنت کس لئے ہے

کھلے ہیں پھول صحرا میں ولیکن
مجھے گھر میں یہ فرحت کس لئے ہے

نہیں واقف ہے دل ایثار سے جب
عطاؔ اظہار الفت کس لئے ہے