تماشا زندگی کا روز و شب ہے
ہماری آنکھوں کو آرام کب ہے
چمکتی ہے تمنا جگنوؤں سی
اندھیری رات میں رونق عجب ہے
ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ
یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے
کہیں دنیا کہاں اس کے تقاضے
وہ تیرا مے کدہ یہ میرا لب ہے
زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکن
عطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے
غزل
تماشا زندگی کا روز و شب ہے
عطا عابدی