EN हिंदी
تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی | شیح شیری
tujhko KHiffat se bacha lun pani

غزل

تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی

عطا عابدی

;

تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی
تشنگی اپنی چھپا لوں پانی

خاک اڑتی ہے ہر اک چہرے پر
کس کی آنکھوں سے نکالوں پانی

دھوپ دریا پہ نظر رکھتی ہے
تجھ کو کوزے میں چھپا لوں پانی

اڑتے پھرتے ہیں سروں پر بادل
خواب آنکھوں میں بسا لوں پانی

روز بچوں کو سلا دوں یونہی
روز پتھر کو ابالوں پانی

آگ سے کھیلتا ہے کل مجھ کو
آ تجھے اپنا بنا لوں پانی

خارزاروں پہ چلوں ننگے پاؤں
خشک دھرتی کی دعا لوں پانی

صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ سنبھالوں پانی

بھول جاؤں نہ کہیں تیراکی
کیوں نہ کشتی ہی جلا لوں پانی

اپنی وحشت کا اک اظہار سہی
کر کے سرد آگ جلا لوں پانی

زخم ہو پھول ہو یا انگارہ
ہو جو روشن تو بلا لوں پانی

شرط ہے تیری رفاقت ورنہ
وقت کی آگ میں ڈالوں پانی

آگ مطلوب لب تشنہ ہے
میں تجھے کیسے بلا لوں پانی

چشم احباب جو ہو خشک عطاؔ
خون کو اپنے بنا لوں پانی