کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے
کہ دنیا جلد لوٹے گی سفر سے
میں صحرا میں سفینہ دیکھتا ہوں
سمندر کوئی گزرا ہے ادھر سے
سنبھالو اپنا حرف داد و تحسیں
میں کب ہوں مطمئن عرض ہنر سے
خطا ہے یہ جواز اپنی خطا کا
خطائیں ہوتی رہتی ہیں بشر سے
سبھوں میں خامیاں ہی دیکھتا ہے
وہ ہے محروم کیا حسن نظر سے
غضب کا آئے گا سیلاب یارو
کہ گزرا ہے بہت سا پانی سر سے
بلندی اتنی بھی اچھی نہیں ہے
اتارو اب عطاؔ کو دار پر سے

غزل
کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے
عطا عابدی