تیرگی شمع بنی راہ گزر میں آئی
ساعت اک ایسی بھی کل اپنے سفر میں آئی
جس جگہ چہرہ ہی معیار وفا ٹھہرا ہے
خاک ہی خاک وہاں دست ہنر میں آئی
تیری نظروں میں تھی دنیا تو یہی کیا کم تھا
حشر یہ ہے کہ تو دنیا کی نظر میں آئی
بارہا یاروں نے ساحل سے کہا تھا ہم ہیں
بارہا ناؤ مگر اپنی بھنور میں آئی
زندگی سمجھوں اسے یا کہ اسے موت کہوں
وہ جو مہمان کی صورت مرے گھر میں آئی
یوں بھی تاریخ کی تاریخ رقم ہوتی ہے
نکلی تاریخ محل سے تو کھنڈر میں آئی
خواب ہی خواب کی تعبیر ہوا تو جانا
زندگی کیوں کسی آنکھوں کے اثر میں آئی
شمع جلتے ہی بجھی اور دھواں ایسا اٹھا
لذت شام یہاں خواب سحر میں آئی
زندگی کچھ ہے عطاؔ شعر و ادب ہے کچھ اور
یہ دو رنگی کی وبا کیسی ہنر میں آئی
غزل
تیرگی شمع بنی راہ گزر میں آئی
عطا عابدی