آ گیا کون یہ آج اس کے مقابل اسلمؔ
آئینہ ٹوٹ گیا عکس کی تابانی سے
اسلم محمود
اب یہ سمجھے کہ اندھیرا بھی ضروری شے ہے
بجھ گئیں آنکھیں اجالوں کی فراوانی سے
اسلم محمود
بے رنگ نہ واپس کر اک سنگ ہی دے سر کو
کب سے ترا طالب ہوں کب سے ترے در پر ہوں
اسلم محمود
دیکھ آ کر کہ ترے ہجر میں بھی زندہ ہیں
تجھ سے بچھڑے تھے تو لگتا تھا کہ مر جائیں گے
اسلم محمود
گزرتے جا رہے ہیں قافلے تو ہی ذرا رک جا
غبار راہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں
اسلم محمود
ہم دل سے رہے تیز ہواؤں کے مخالف
جب تھم گیا طوفاں تو قدم گھر سے نکالا
اسلم محمود
کہاں بھٹکتی پھرے گی اندھیری گلیوں میں
ہم اک چراغ سر کوچۂ ہوا رکھ آئے
اسلم محمود
خطا یہ تھی کہ میں آسانیوں کا طالب تھا
سزا یہ ہے کہ مرا تیشۂ ہنر بھی گیا
اسلم محمود
میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا
عجب تھا خواب کہ میں خواب ہی میں ڈر بھی گیا
اسلم محمود