کیوں مجھ سے گریزاں ہے میں تیرا مقدر ہوں
اے عمر رواں خوش ہوں میں تجھ کو میسر ہوں
میں آپ بہار اپنی میں اپنا ہی منظر ہوں
خود اپنے ہی خوابوں کی خوشبو سے معطر ہوں
بے رنگ نہ واپس کر اک سنگ ہی دے سر کو
کب سے ترا طالب ہوں کب سے ترے در پر ہوں
جب جیسی ضرورت ہو بن جاتا ہوں ویسا ہی
خود اپنی طبیعت میں شیشہ ہوں نہ پتھر ہوں
لمحوں کے تسلسل میں مرضی ہے مری شامل
میں وقت کی شہ رگ پر رکھا ہوا خنجر ہوں
آسودہ ہوں میں اپنے ویرانۂ ہستی میں
دنیا تجھے ملنے کے امکان سے باہر ہوں
جب چاہوں سمٹ کر میں ذرے میں سما جاؤں
وسعت میں تو ویسے ہی صحرا ہوں سمندر ہوں
غزل
کیوں مجھ سے گریزاں ہے میں تیرا مقدر ہوں
اسلم محمود