عکس جل جائیں گے آئینے بکھر جائیں گے
خواب ان جاگتی آنکھوں میں ہی مر جائیں گے
ہم کہ دل دادہ کہاں رونق بازار کے ہیں
بے نیازانہ ہی دنیا سے گزر جائیں گے
جن کو دستار کی خواہش ہے انہیں کیا معلوم
معرکہ اب کے وہ ٹھہرا ہے کہ سر جائیں گے
کوئی منزل نہیں رستے ہیں فقط چاروں طرف
جو نکل آئے ہیں گھر سے وہ کدھر جائیں گے
دیکھ آ کر کہ ترے ہجر میں بھی زندہ ہیں
تجھ سے بچھڑے تھے تو لگتا تھا کہ مر جائیں گے
ہم کہ شرمندۂ اسباب نہیں ہونے کے
حکم جب ہوگا تو بے رخت سفر جائیں گے
ہم سے دریا جو گریزاں ہے تو ہم بھی اک دن
کسی تپتے ہوئے صحرا میں اتر جائیں گے
ہم کو دریا سے نہ موجوں سے نہ کشتی سے غرض
اب کے اس پار ہمیں لے کے بھنور جائیں گے
غزل
عکس جل جائیں گے آئینے بکھر جائیں گے
اسلم محمود