نئے پیکر نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں
مزاج زندگی یکسر بدلنا چاہتا ہوں میں
زمیں تیری کشش نے روک رکھا ہے مجھے ورنہ
حدود خاک سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں
نمو کا جوش ٹھوکر مارتا رہتا ہے سینے میں
لہو کا چشمہ ہوں کب سے ابلنا چاہتا ہوں میں
گزرتے جا رہے ہیں قافلے تو ہی ذرا رک جا
غبار راہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں
میں اپنے برف کے پیکر سے خود اکتا گیا ہوں اب
چمک مجھ پر مرے سورج پگھلنا چاہتا ہوں میں
صدائیں دشت دیتا ہے مجھے وحشت بلاتی ہے
سو خاک عشق اپنے سر پہ ملنا چاہتا ہوں میں
ادھر سے بھی کوئی گزرے کہ میں جس سے کہوں اسلمؔ
چراغ رہ گزر ہوں اور جلنا چاہتا ہوں میں
غزل
نئے پیکر نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں
اسلم محمود