ہر رنگ طرب موسم و منظر سے نکالا
اک راستہ پھر سعئ مکرر سے نکالا
چلنے لگی ہر سمت سے جب باد خوش آثار
اک اور بھنور ہم نے سمندر سے نکالا
دیتی رہی آواز پہ آواز یہ دنیا
سر ہم نے نہ پھر خاک کی چادر سے نکالا
کم پڑ گئی پرواز کو جب وسعت افلاک
اک اور فلک اپنے ہی شہ پر سے نکالا
ہم دل سے رہے تیز ہواؤں کے مخالف
جب تھم گیا طوفاں تو قدم گھر سے نکالا
اب کیفیت و رنگ نظر آئی جو دنیا
موسم نیا پھر اپنے ہی اندر سے نکالا
آثار نظر آئے نہ سیرابئ دل کے
تھک ہار کے سودائے نمو سر سے نکالا
غزل
ہر رنگ طرب موسم و منظر سے نکالا
اسلم محمود