دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے
منہ تکا کرتا ہے ہر دم مرا حیرانی سے
لوگ دریاؤں پہ کیوں جان دیئے دیتے ہیں
تشنگی کا تو تعلق ہی نہیں پانی سے
اب کسی بھاؤ نہیں ملتا خریدار کوئی
گر گئی ہے مری قیمت مری ارزانی سے
خود پہ سو جبر کئے دل کو بہت سمجھایا
راس آئی کہاں دنیا ہمیں آسانی سے
اب یہ سمجھے کہ اندھیرا بھی ضروری شے ہے
بجھ گئیں آنکھیں اجالوں کی فراوانی سے
اجنبی آہٹیں انجان صدائیں مجھ میں
میں تو باز آیا خرابے کی نگہبانی سے
آ گیا کون یہ آج اس کے مقابل اسلمؔ
آئینہ ٹوٹ گیا عکس کی تابانی سے
غزل
دشت مرعوب ہے کتنا مری ویرانی سے
اسلم محمود