بہت چھوٹا سا دل اور اس میں اک چھوٹی سی خواہش
سو یہ خواہش بھی اب نیلام کرنے کے لیے ہے
اشفاق حسین
دل کی جاگیر میں میرا بھی کوئی حصہ رکھ
میں بھی تیرا ہوں مجھے بھی تو کہیں رہنا ہے
اشفاق حسین
دل میں سو تیر ترازو ہوئے تب جا کے کھلا
اس قدر سہل نہ تھا جاں سے گزرنا میرا
اشفاق حسین
دن بھر کے جھمیلوں سے بچا لایا تھا خود کو
شام آتے ہی اشفاقؔ میں ٹوٹا ہوا کیوں ہوں
اشفاق حسین
جو خواب کی دہلیز تلک بھی نہیں آیا
آج اس سے ملاقات کی صورت نکل آئی
اشفاق حسین
کام جو عمر رواں کا ہے اسے کرنے دے
میری آنکھوں میں سدا تجھ کو حسیں رہنا ہے
اشفاق حسین
کون ہیں وہ جنہیں آفاق کی وسعت کم ہے
یہ سمندر نہ یہ دریا، نہ یہ صحرا میرا
اشفاق حسین
کھل کر تو وہ مجھ سے کبھی ملتا ہی نہیں ہے
اور اس سے بچھڑ جانے کا امکان ہے یوں بھی
اشفاق حسین
لفظوں میں ہر اک رنج سمونے کا قرینہ
اس آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے ملا ہے
اشفاق حسین