کہا کس نے مسلسل کام کرنے کے لیے ہے
یہ دنیا اصل میں آرام کرنے کے لیے ہے
محبت اور پھر ایسی محبت جو ہے تجھ سے
چھپائیں کیوں یہ خوشبو عام کرنے کے لیے ہے
کرے گا کون تجھ کو تیری بے مہری کا قائل
یہاں جو بھی ہے تجھ کو رام کرنے کے لیے ہے
یہ کار عشق میں الجھی ہوئی بے نام دنیا
حقیقت میں نمود و نام کرنے کے لیے ہے
بہت چھوٹا سا دل اور اس میں اک چھوٹی سی خواہش
سو یہ خواہش بھی اب نیلام کرنے کے لیے ہے
غزل کہنی پھر اس میں اپنے دل کی بات کہنی
یہی کافی ہمیں بدنام کرنے کے لیے ہے
بہت دن رہ چکے نام آوروں کے بیچ اشفاقؔ
اب اپنا نام بس گمنام کرنے کے لیے ہے

غزل
کہا کس نے مسلسل کام کرنے کے لیے ہے
اشفاق حسین