EN हिंदी
اشفاق حسین شیاری | شیح شیری

اشفاق حسین شیر

15 شیر

میں اپنی پیاس میں کھویا رہا خبر نہ ہوئی
قدم قدم پہ وہ دریا پکارتا تھا مجھے

اشفاق حسین




پھول مہکیں گے یوں ہی چاند یوں ہی چمکے گا
تیرے ہوتے ہوئے منظر کو حسیں رہنا ہے

اشفاق حسین




تلاش اپنی خود اپنے وجود کو کھو کر
یہ کار عشق ہے اس میں لگا تو میں بھی ہوں

اشفاق حسین




تمہیں منانے کا مجھ کو خیال کیا آئے
کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تو میں بھی ہوں

اشفاق حسین




ٹوٹے ہوئے لوگ ہیں سلامت
یہ نقل مکانی کا معجزہ ہے

اشفاق حسین




وہ ہو نہ سکا اپنا تو ہم ہو گئے اس کے
اس شخص کی مرضی ہی میں ڈھالے ہوئے ہم ہیں

اشفاق حسین