EN हिंदी
پھر یاد اسے کرنے کی فرصت نکل آئی | شیح شیری
phir yaad use karne ki fursat nikal aai

غزل

پھر یاد اسے کرنے کی فرصت نکل آئی

اشفاق حسین

;

پھر یاد اسے کرنے کی فرصت نکل آئی
مت پوچھئے کس موڑ پہ قسمت نکل آئی

کچھ ان دنوں دل اس کا دکھا ہے تو ہمیں بھی
اس شخص سے ملنے کی سہولت نکل آئی

آباد ہوئے جب سے ان آنکھوں کے کنارے
دنیا جسے سمجھے تھے وہ جنت نکل آئی

جو خواب کی دہلیز تلک بھی نہیں آیا
آج اس سے ملاقات کی صورت نکل آئی

اب آ کے گلے ملتا ہے پہلے تھا گریزاں
کیا ہم سے اسے کوئی ضرورت نکل آئی

اک شخص کی محبوب نگاہی کے سبب سے
اشفاقؔ تمہاری بھی تو قامت نکل آئی