آہ کیا کیا آرزوئیں نذر حرماں ہو گئیں
روئیے کس کس کو اور کس کس کا ماتم کیجئے
اثر صہبائی
الٰہی کشتئ دل بہہ رہی ہے کس سمندر میں
نکل آتی ہیں موجیں ہم جسے ساحل سمجھتے ہیں
اثر صہبائی
جہاں پہ چھایا سحاب مستی برس رہی ہے شراب مستی
غضب ہے رنگ شباب مستی کہ رند و زاہد بہک رہے ہیں
اثر صہبائی
جس حسن کی ہے چشم تمنا کو جستجو
وہ آفتاب میں ہے نہ ہے ماہتاب میں
اثر صہبائی
خدا کی دین ہے جس کو نصیب ہو جائے
ہر ایک دل کو غم جاوداں نہیں ملتا
this is a gift from God, the blessed are bestowed
not on every heart is this eternal ache endowed
اثر صہبائی
ساری دنیا سے بے نیازی ہے
واہ اے مست ناز کیا کہنا
اثر صہبائی
سجدہ کے داغ سے نہ ہوئی آشنا جبیں
بیگانہ وار گزرے ہر اک آستاں سے ہم
اثر صہبائی
تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا
میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں
اثر صہبائی
تمہاری یاد میں دنیا کو ہوں بھلائے ہوے
تمہارے درد کو سینے سے ہوں لگائے ہوے
اثر صہبائی