EN हिंदी
لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں | شیح شیری
lutf gunah mein mila aur na maza sawab mein

غزل

لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں

اثر صہبائی

;

لطف گناہ میں ملا اور نہ مزہ ثواب میں
عمر تمام کٹ گئی کاوش احتساب میں

تیرے شباب نے کیا مجھ کو جنوں سے آشنا
میرے جنوں نے بھر دیے رنگ تری شباب میں

آہ یہ دل کہ جاں گداز جوشش اضطراب ہے
ہائے وہ دور جب کبھی لطف تھا اضطراب میں

قلب تڑپ تڑپ اٹھا روح لرز لرز گئی
بجلیاں تھیں بھری ہوئی زمزمۂ رباب میں

چرخ بھی مے پرست ہے بزم زمیں بھی مست ہے
غرق بلند و پست ہے جلوۂ ماہتاب میں

میرے لیے عجیب ہیں تیری یہ مسکراہٹیں
جاگ رہا ہوں یا تجھے دیکھ رہا ہوں خواب میں

میرے سکوت میں نہاں ہے مرے دل کی داستاں
جھک گئی چشم فتنہ زا ڈوب گئی حجاب میں

لذت جام جم کبھی تلخی زہر غم کبھی
عشرت زیست ہے اثرؔ گردش انقلاب میں