آنکھوں میں گھل نہ جائیں کہیں ظلمتوں کے رنگ
جس سمت روشنی ہے ادھر دیکھتے رہو
انور معظم
آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے توقیر کہاں
کس محفل کا نام ہے مقتل کھنچتی ہے شمشیر کہاں
انور معظم
دھواں اٹھتا نظر آتا ہے ہر سو
ابھی آباد ہے ویرانہ دل کا
انور معظم
دلوں کی آگ بڑھاؤ کہ لوگ کہتے ہیں
چراغ حسن سے روشن جہاں نہیں ہوتا
انور معظم
ایک آواز تو گونجی تھی افق تا بہ افق
کارواں گم ہے کہاں گرد سفر سے پوچھو
انور معظم
ہمیں بادہ کش درد تمنا
ہمیں پر بند ہے مے خانہ دل کا
انور معظم
ہجوم صبح کی تنہائیوں میں ڈوب گئے
وہ قافلے جو اندھیروں کی انجمن سے چلے
انور معظم
کون رویا پس دیوار چمن آخر شب
کیوں صبا لوٹ گئی راہ گزر سے پوچھو
انور معظم
نہ ملا پر نہ ملا عشق کو انداز جنوں
ہم نے مجنوں کی بھی آشفتہ سری دیکھی ہے
انور معظم