آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی
اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے
انجم سلیمی
آگے بچھی پڑی رہیں اس کے بدن کی نعمتیں
اس نے بہت کہا مگر میں نے اسے چکھا نہیں
انجم سلیمی
آتی جاتی ہوئی تنہائی کو پہچانتا ہوں
گھر کے دروازے پہ بیٹھا ہوں سدھایا ہوا میں
انجم سلیمی
ادھ بنے خوابوں کا انبار پڑا ہے دل میں
آنکھ والوں کے لیے ہے یہ امانت میری
انجم سلیمی
ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے
انجم سلیمی
اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی
تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے
انجم سلیمی
برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ
دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے
انجم سلیمی
بس اندھیرے نے رنگ بدلا ہے
دن نہیں ہے سفید رات ہے یہ
انجم سلیمی
بجھنے دے سب دیئے مجھے تنہائی چاہئے
کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہئے
انجم سلیمی