بجھنے دے سب دئے مجھے تنہائی چاہیئے
کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہیئے
کچھ غم کشید کرنے ہیں اپنے وجود سے
جا غم کے ساتھیے مجھے تنہائی چاہیئے
اکتا گیا ہوں خود سے اگر میں تو کیا ہوا
یہ بھی تو دیکھیے مجھے تنہائی چاہیئے
اک روز خود سے ملنا ہے اپنے خمار میں
اک شام بن پئے مجھے تنہائی چاہیئے
تکرار اس میں کیا ہے اگر کہہ رہا ہوں میں
تنہائی چاہیئے مجھے تنہائی چاہیئے
دنیا سے کچھ نہیں ہے سروکار اب مجھے
بے شک مرے لیے مجھے تنہائی چاہیئے
غزل
بجھنے دے سب دئے مجھے تنہائی چاہیئے
انجم سلیمی