EN हिंदी
انجم سلیمی شیاری | شیح شیری

انجم سلیمی شیر

72 شیر

کسی طرح سے میں ٹل جاؤں اپنی مرضی سے
سو بار بار ارادہ بدل کے دیکھتا ہوں

انجم سلیمی




تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں
ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں

انجم سلیمی




ٹھیک سے یاد بھی نہیں اب تو
عشق نے مجھ میں کب قیام کیا

انجم سلیمی




تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں
خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے

انجم سلیمی




شب جمال سلامت رہیں ترے پری زاد
جنہیں میں خواب سناتا ہوں رقص کرتا ہوں

انجم سلیمی




سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے
ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری

انجم سلیمی




ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی

انجم سلیمی




روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں
ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں

انجم سلیمی




پرانا زہر نئے نام سے ملا ہے مجھے
وہ آستین نہیں کینچلی بدل رہا تھا

انجم سلیمی