EN हिंदी
انجم سلیمی شیاری | شیح شیری

انجم سلیمی شیر

72 شیر

آنکھ کھل کر ابھی مانوس نہیں ہو پاتی
اور دیوار سے تصویر بدل جاتی ہے

انجم سلیمی




کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے
سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے

انجم سلیمی




جست بھرتا ہوا فردا کے دہانے کی طرف
جا نکلتا ہوں کسی گزرے زمانے کی طرف

انجم سلیمی




جب خدا بھی نہیں تھا ساتھ مرے
مجھ پہ بیتی ہے ایسی تنہائی

انجم سلیمی




جانے توڑے تھے کس نے کس کے لیے
پھول میرے گلے پڑے ہوئے تھے

انجم سلیمی




اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب
اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں

انجم سلیمی




اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے
تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے

انجم سلیمی




عشق فرما لیا تو سوچتا ہوں
کیا مصیبت پڑی ہوئی تھی مجھے

انجم سلیمی




ہجر میں بھی ہم ایک دوسرے کے
آمنے سامنے پڑے ہوئے تھے

انجم سلیمی