چکھ رہا تھا میں اک بدن کا نمک
سارے برتن کھلے پڑے ہوئے تھے
انجم سلیمی
ہر طرف تو نظر آتا ہے جدھر جاتا ہوں
تیرے امکان سے ہجرت نہیں کر سکتا میں
انجم سلیمی
ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا
کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں
انجم سلیمی
ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر
سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے
انجم سلیمی
ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا
انجم سلیمی
ایک بے نام اداسی سے بھرا بیٹھا ہوں
آج دل کھول کے رونے کی ضرورت ہے مجھے
انجم سلیمی
دوستو میرے لیے کوئی بھی افسردہ نہ ہو
خوش دلی سے دم رخصت مجھے رخصت کیا جائے
انجم سلیمی
درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو
تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے
انجم سلیمی
چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر
میں نے دریا کا احترام کیا
انجم سلیمی