کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے
میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں
انجم سلیمی
کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا
مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری
انجم سلیمی
کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے
کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا
انجم سلیمی
کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو
عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں
انجم سلیمی
خواب شرمندۂ وصال ہوا
ہجر میں نیند آ گئی تھی مجھے
انجم سلیمی
کھلی ہوئی ہے جو کوئی آسان راہ مجھ پر
میں اس سے ہٹ کے اک اور رستہ بنا رہا ہوں
انجم سلیمی
خود تک مری رسائی نہیں ہو رہی ابھی
حیرت ہے اس طرف بھی نہیں ہوں جدھر میں ہوں
انجم سلیمی
کر رہا ہوں تجھے خوشی سے بسر
زندگی تجھ سے داد چاہتا ہوں
انجم سلیمی
کیسی ہوتی ہیں اداسی کی جڑیں
آ دکھاؤں تجھے دل کے ریشے
انجم سلیمی