میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں
مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو
انجم سلیمی
میں دل گرفتہ تجھے گنگناتا رہتا ہوں
بہت دنوں سے مرے یار زیر لب ہے تو
انجم سلیمی
میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج
مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے
انجم سلیمی
میں اندھیرے میں ہوں مگر مجھ میں
روشنی نے جگہ بنا لی ہے
انجم سلیمی
میں آج خود سے ملاقات کرنے والا ہوں
جہاں میں کوئی بھی میرے سوا نہ رہ جائے
انجم سلیمی
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
انجم سلیمی
معذرت روندے ہوئے پھولوں سے کر لوں تو چلوں
منتظر شہر میں تاخیر سے آیا ہوا میں
انجم سلیمی
کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی
کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا
انجم سلیمی
کسی طرح سے نظر مطمئن نہیں ہوتی
ہر ایک شے کو دوبارہ بدل کے دیکھتا ہوں
انجم سلیمی