آبلوں کا شکوہ کیا ٹھوکروں کا غم کیسا
آدمی محبت میں سب کو بھول جاتا ہے
عامر عثمانی
عقل تھک کر لوٹ آئی جادۂ آلام سے
اب جنوں آغاز فرمائے گا اس انجام سے
عامر عثمانی
باقی ہی کیا رہا ہے تجھے مانگنے کے بعد
بس اک دعا میں چھوٹ گئے ہر دعا سے ہم
عامر عثمانی
ہمیں آخرت میں عامرؔ وہی عمر کام آئی
جسے کہہ رہی تھی دنیا غم عشق میں گنوا دی
عامر عثمانی
عشق کے مراحل میں وہ بھی وقت آتا ہے
آفتیں برستی ہیں دل سکون پاتا ہے
عامر عثمانی
عشق سر تا بہ قدم آتش سوزاں ہے مگر
اس میں شعلہ نہ شرارہ نہ دھواں ہوتا ہے
عامر عثمانی
کتنی پامال امنگوں کا ہے مدفن مت پوچھ
وہ تبسم جو حقیقت میں فغاں ہوتا ہے
عامر عثمانی
مری زندگی کا حاصل ترے غم کی پاسداری
ترے غم کی آبرو ہے مجھے ہر خوشی سے پیاری
عامر عثمانی
سبق ملا ہے یہ اپنوں کا تجربہ کر کے
وہ لوگ پھر بھی غنیمت ہیں جو پرائے ہیں
عامر عثمانی