دل پہ وہ وقت بھی کس درجہ گراں ہوتا ہے
ضبط جب داخل فریاد و فغاں ہوتا ہے
کیسے بتلائیں کہ وہ درد کہاں ہوتا ہے
خون بن کر جو رگ و پے میں رواں ہوتا ہے
عشق ہی کب ہے جو مانوس زباں ہوتا ہے
درد ہی کب ہے جو محتاج بیاں ہوتا ہے
جتنی جتنی ستم یار سے کھاتا ہے شکست
دل جواں اور جواں اور جواں ہوتا ہے
واہ کیا چیز ہے یہ شدت ربط باہم
بارہا خود پہ مجھے تیرا گماں ہوتا ہے
کتنی پامال امنگوں کا ہے مدفن مت پوچھ
وہ تبسم جو حقیقت میں فغاں ہوتا ہے
عشق سر تا بہ قدم آتش سوزاں ہے مگر
اس میں شعلہ نہ شرارہ نہ دھواں ہوتا ہے
کیا یہ انصاف ہے اے خالق صبح گلشن
کوئی ہنستا ہے کوئی گریہ کناں ہوتا ہے
غم کی بڑھتی ہوئی یورش سے نہ گھبرا عامرؔ
غم بھی اک منزل راحت کا نشاں ہوتا ہے
غزل
دل پہ وہ وقت بھی کس درجہ گراں ہوتا ہے
عامر عثمانی