آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
الطاف حسین حالی
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم
الطاف حسین حالی
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
الطاف حسین حالی
بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں
الطاف حسین حالی
چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو
نیند پھر رات بھر نہ آئی آج
الطاف حسین حالی
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
the river is concerned with the storms in its domain
the ship as well might get across or in the midst remain
الطاف حسین حالی
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی
الطاف حسین حالی
دکھانا پڑے گا مجھے زخم دل
اگر تیر اس کا خطا ہو گیا
الطاف حسین حالی
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
الطاف حسین حالی