ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
الطاف حسین حالی
ہم نے اول سے پڑھی ہے یہ کتاب آخر تک
ہم سے پوچھے کوئی ہوتی ہے محبت کیسی
الطاف حسین حالی
ہم روز وداع ان سے ہنس ہنس کے ہوئے رخصت
رونا تھا بہت ہم کو روتے بھی تو کیا ہوتا
الطاف حسین حالی
ہر سمت گرد ناقۂ لیلیٰ بلند ہے
پہنچے جو حوصلہ ہو کسی شہسوار کا
الطاف حسین حالی
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
الطاف حسین حالی
اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو
تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے
الطاف حسین حالی
عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا
الطاف حسین حالی