کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں
قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگا دو آگ کوئی آشیاں میں
کوئی دن بوالہوس بھی شاد ہو لیں
دھرا کیا ہے اشارات نہاں میں
کہیں انجام آ پہنچا وفا کا
گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں
نیا ہے لیجئے جب نام اس کا
بہت وسعت ہے میری داستاں میں
دل پر درد سے کچھ کام لوں گا
اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں
بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
غزل
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
الطاف حسین حالی