بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج
بول کر ہم نے منہ کی کھائی آج
چپ پر اپنی بھرم تھے کیا کیا کچھ
بات بگڑی بنی بنائی آج
شکوہ کرنے کی خو نہ تھی اپنی
پر طبیعت ہی کچھ بھر آئی آج
بزم ساقی نے دی الٹ ساری
خوب بھر بھر کے خم لنڈھائی آج
معصیت پر ہے دیر سے یا رب
نفس اور شرع میں لڑائی آج
غالب آتا ہے نفس دوں یا شرع
دیکھنی ہے تری خدائی آج
چور ہے دل میں کچھ نہ کچھ یارو
نیند پھر رات بھر نہ آئی آج
زد سے الفت کی بچ کے چلنا تھا
مفت حالیؔ نے چوٹ کھائی آج
غزل
بات کچھ ہم سے بن نہ آئی آج
الطاف حسین حالی