آئے عدم سے ایک جھلک دیکھنے تری
رکھا ہی کیا تھا ورنہ جہان خراب میں
اختر رضا سلیمی
اب زمیں بھی جگہ نہیں دیتی
ہم کبھی آسماں پہ رہتے تھے
اختر رضا سلیمی
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا
تمہارا ہو کے بھی ممکن ہے میں رہوں اس کا
اختر رضا سلیمی
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا
تمہارا ہو کے بھی ممکن ہے میں رہوں اس کا
اختر رضا سلیمی
گزر رہا ہوں کسی جنت جمال سے میں
گناہ کرتا ہوا نیکیاں کماتا ہوا
اختر رضا سلیمی
ہم آئے روز نیا خواب دیکھتے ہیں مگر
یہ لوگ وہ نہیں جو خواب سے بہل جائیں
اختر رضا سلیمی
اک آگ ہماری منتظر ہے
اک آگ سے ہم نکل رہے ہیں
اختر رضا سلیمی
جسموں سے نکل رہے ہیں سائے
اور روشنی کو نگل رہے ہیں
اختر رضا سلیمی
خواب گلیوں میں پھر رہے تھے اور
لوگ اپنے گھروں میں سوئے تھے
اختر رضا سلیمی