EN हिंदी
اختر رضا سلیمی شیاری | شیح شیری

اختر رضا سلیمی شیر

14 شیر

پہلے تراشا کانچ سے اس نے مرا وجود
پھر شہر بھر کے ہاتھ میں پتھر تھما دیئے

اختر رضا سلیمی




سنا گیا ہے یہاں شہر بس رہا تھا کوئی
کہا گیا ہے یہاں پر مکان ہوتے تھے

اختر رضا سلیمی




تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید
کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا

اختر رضا سلیمی




تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے

اختر رضا سلیمی




یہیں کہیں پہ کوئی شہر بس رہا تھا ابھی
تلاش کیجئے اس کا اگر نشاں کوئی ہے

اختر رضا سلیمی