EN हिंदी
دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا | شیح شیری
dil o nigah pe tari rahe fusun us ka

غزل

دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا

اختر رضا سلیمی

;

دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا
تمہارا ہو کے بھی ممکن ہے میں رہوں اس کا

زمیں کی خاک تو کب کی اڑا چکے ہیں ہم
ہماری زد میں ہے اب چرخ نیلگوں اس کا

تجھے خبر نہیں اس بات کی ابھی شاید
کہ تیرا ہو تو گیا ہوں مگر میں ہوں اس کا

اب اس سے قطع تعلق میں بہتری ہے مری
میں اپنا رہ نہیں سکتا اگر رہوں اس کا

دل تباہ کی دھڑکن بتا رہی ہے رضاؔ
یہیں کہیں پہ ہے وہ شہر پر سکوں اس کا