EN हिंदी
ادیب سہارنپوری شیاری | شیح شیری

ادیب سہارنپوری شیر

6 شیر

اپنے اپنے حوصلوں اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے انہیں سارا جہاں رہنے دیا

ادیب سہارنپوری




باندھ کر عہد وفا کوئی گیا ہے مجھ سے
اے مری عمر رواں اور ذرا آہستہ

ادیب سہارنپوری




ہزار بار ارادہ کئے بغیر بھی ہم
چلے ہیں اٹھ کے تو اکثر گئے اسی کی طرف

ادیب سہارنپوری




منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پاؤں تھکنے سے

ادیب سہارنپوری




راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
غم پالتی ہے عمر گریزاں نئے نئے

ادیب سہارنپوری




یہی مہر و ماہ و انجم کو گلہ ہے مجھ سے یارب
کہ انہیں بھی چین ملتا جو مجھے قرار ہوتا

ادیب سہارنپوری