EN हिंदी
عبدالصمد تپشؔ شیاری | شیح شیری

عبدالصمد تپشؔ شیر

18 شیر

اب نشانہ اس کی اپنی ذات ہے
لڑ رہا ہے اک انوکھی جنگ وہ

عبدالصمد تپشؔ




ہوائے تند کیسی چل پڑی ہے
شجر پر ایک بھی پتا نہیں ہے

عبدالصمد تپشؔ




جفا کے ذکر پہ وہ بد حواس کیسا ہے
ذرا سی بات تھی لیکن اداس کیسا ہے

عبدالصمد تپشؔ




جہاں تک پاؤں میرے جا سکے ہیں
وہیں تک راستہ ٹھہرا ہوا ہے

عبدالصمد تپشؔ




کون پتھر اٹھائے
یہ شجر بے ثمر ہے

عبدالصمد تپشؔ




کوئی کالم نہیں ہے حادثوں پر
بچا کر آج کا اخبار رکھنا

عبدالصمد تپشؔ




کچھ حقائق کے زندہ پیکر ہیں
لفظ میں کیا بیان میں کیا ہے

عبدالصمد تپشؔ




کیوں وہ ملنے سے گریزاں اس قدر ہونے لگے
میرے ان کے درمیاں دیوار رکھ جاتا ہے کون

عبدالصمد تپشؔ




میں بھی تنہا اس طرف ہوں وہ بھی تنہا اس طرف
میں پریشاں ہوں تو ہوں وہ بھی پریشانی میں ہے

عبدالصمد تپشؔ