دیکھ کر میری انا کس درجہ حیرانی میں ہے
اس نے سمجھا تھا کہ سب کچھ باب امکانی میں ہے
مجھ کو غم دے دے کے خوش تھا وہ مگر یہ کیا ہوا
وقت کے ہاتھوں وہی غم کی فراوانی میں ہے
کس کو کس کو خوش رکھے وہ کس سے جھگڑا مول لے
فیصلہ ہے اس کے ہاتھوں میں تو حیرانی میں ہے
ہر گھڑی اب حسرتوں کی لاش دیتی ہے دھواں
اک عجب شمشان میرے دل کی ویرانی میں ہے
میں بھی تنہا اس طرف ہوں وہ بھی تنہا اس طرف
میں پریشاں ہوں تو ہوں وہ بھی پریشانی میں ہے
برف بھی سیماب بھی ساحل بھی ہے گرداب بھی
یہ تضاد خاصیت اک شکل انسانی میں ہے
غزل
دیکھ کر میری انا کس درجہ حیرانی میں ہے
عبدالصمد تپشؔ