گرچہ نیزوں پہ سر ہے
موت تو وقت پر ہے
کون پتھر اٹھائے
یہ شجر بے ثمر ہے
گھونسلہ زندگی کا
سانس کی شاخ پر ہے
کوئی دشمن نہیں ہے
مجھ کو اپنا ہی ڈر ہے
شک بھی کیجے تو کس پر
وہ بڑا معتبر ہے
زد میں آندھی کے اکثر
ایک میرا ہی گھر ہے
اپنی پہچان رکھنا
بھیڑ ہر موڑ پر ہے
میرے مولا تپشؔ کو
عشق خیرالبشر ہے
غزل
گرچہ نیزوں پہ سر ہے
عبدالصمد تپشؔ