خوف و وحشت بر سر بازار رکھ جاتا ہے کون
یوں رگ احساس پر تلوار رکھ جاتا ہے کون
کیوں وہ ملنے سے گریزاں اس قدر ہونے لگے
میرے ان کے درمیاں دیوار رکھ جاتا ہے کون
منبر و محراب سے آتش فشاں ہوتے تو ہیں
وقت کی دہلیز پر دستار رکھ جاتا ہے کون
بس خدا غافل نہیں ہے ورنہ اس منجدھار میں
میری کشتی کے لئے پتوار رکھ جاتا ہے کون
یہ مرا ذوق سفر ہے ورنہ ایسی دھوپ میں
ہر قدم پر اک شجر چھتنار رکھ جاتا ہے کون
دل بڑی نازک سی شے ہے ان سے اتنا پوچھیے
ٹوٹے شیشوں کا یہاں انبار رکھ جاتا ہے کون
تیرگی اپنا مقدر لکھ چکی پھر بھی تپشؔ
آئنے میں اک غلط پندار رکھ جاتا ہے کون
غزل
خوف و وحشت بر سر بازار رکھ جاتا ہے کون
عبدالصمد تپشؔ