جفا کے ذکر پہ وہ بد حواس کیسا ہے
ذرا سی بات تھی لیکن اداس کیسا ہے
نہ جانے کون فضاؤں میں زہر گھول گیا
ہرا بھرا سا شجر بے لباس کیسا ہے
مری طرح سے نہ حق بات تم کہو دیکھو
بلا کا سایہ مرے آس پاس کیسا ہے
یہ فیصلہ ہے کہ ہم اپنے حق سے باز آئیں
تو پھر یہ لہجہ یہ ترا، التماس کیسا ہے
وہی جو شہر کے لوگوں میں تھا بہت بد نام
وہی تو آج سراپا سپاس کیسا ہے
میں کیا کہوں کہ میں کیوں دل سے ہو گیا مجبور
تم ہی بتاؤ کہ وہ خوش لباس کیسا ہے
غزل
جفا کے ذکر پہ وہ بد حواس کیسا ہے
عبدالصمد تپشؔ