اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے مجھ کو
میں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں میں
آسی الدنی
بیتاب سا پھرتا ہے کئی روز سے آسیؔ
بیچارے نے پھر تم کو کہیں دیکھ لیا ہے
آسی الدنی
عشق پابند وفا ہے نہ کہ پابند رسوم
سر جھکانے کو نہیں کہتے ہیں سجدہ کرنا
love is known by faithfulness and not by rituals bound
just bowing of one's head is not
آسی الدنی
جہاں اپنا قصہ سنانا پڑا
وہیں ہم کو رونا رلانا پڑا
آسی الدنی
کہتے ہیں کہ امید پہ جیتا ہے زمانہ
وہ کیا کرے جس کو کوئی امید نہیں ہو
آسی الدنی
مرتب کر گیا اک عشق کا قانون دنیا میں
وہ دیوانے ہیں جو مجنوں کو دیوانہ بتاتے ہیں
آسی الدنی
صبر پر دل کو تو آمادہ کیا ہے لیکن
ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تری آواز کے ساتھ
آسی الدنی