EN हिंदी
تغافل شیاری | شیح شیری

تغافل

21 شیر

میں در گزرا صاحب سلامت سے بھی
خدا کے لئے اتنا برہم نہ ہو

خواجہ امین الدین امین




سناتے ہو کسے احوال ماہرؔ
وہاں تو مسکرایا جا رہا ہے

ماہر القادری




بعد مرنے کے مری قبر پہ آیا غافلؔ
یاد آئی مرے عیسیٰ کو دوا میرے بعد

منور خان غافل




ہم تری راہ میں جوں نقش قدم بیٹھے ہیں
تو تغافل کیے اے یار چلا جاتا ہے

شیخ ظہور الدین حاتم




کبھی یک بہ یک توجہ کبھی دفعتاً تغافل
مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر

شکیل بدایونی




یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

شکیل بدایونی




وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار
کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا

وحشتؔ رضا علی کلکتوی