EN हिंदी
تغافل شیاری | شیح شیری

تغافل

21 شیر

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں

ah! this denial, nothing can allay
every day you say no, not today

داغؔ دہلوی




اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

فیض احمد فیض




اس جگہ جا کے وہ بیٹھا ہے بھری محفل میں
اب جہاں میرے اشارے بھی نہیں جا سکتے

فرحت احساس




کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے

حفیظ بنارسی




پھر اور تغافل کا سبب کیا ہے خدایا
میں یاد نہ آؤں انہیں ممکن ہی نہیں ہے

حسرتؔ موہانی




اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی

جمال احسانی




تمہیں یاد ہی نہ آؤں یہ ہے اور بات ورنہ
میں نہیں ہوں دور اتنا کہ سلام تک نہ پہنچے

کلیم عاجز