EN हिंदी
شیر شیاری | شیح شیری

شیر

34 شیر

اس کا تو ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ہے یاد
کل رات ایک شعر کہا تھا جو خواب میں

کمال احمد صدیقی




شاعری میں انفس و آفاق مبہم ہیں ابھی
استعارہ ہی حقیقت میں خدا سا خواب ہے

کاوش بدری




حرف کو برگ نوا دیتا ہوں
یوں مرے پاس ہنر کچھ بھی نہیں

خلیل تنویر




بھوک تخلیق کا ٹیلنٹ بڑھا دیتی ہے
پیٹ خالی ہو تو ہم شعر نیا کہتے ہیں

خالد عرفان




اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا
دیکھو ہم نے پیٹ کی خاطر کیا کیا کاروبار کیا

محمود شام




دھرتی کو دھڑکن ملی ملا سمے کو گیان
میرے جب جب لب کھلے اٹھا کوئی طوفان

نذیر فتح پوری




اپنے لہجے کی حفاظت کیجئے
شعر ہو جاتے ہیں نامعلوم بھی

ندا فاضلی