سو رہا ہوں میں کہ یہ جاگا ہوا سا خواب ہے
لا شعوری وسعتوں میں اونگھتا سا خواب ہے
مختصر ہیں زندگی کے دن مگر راتیں طویل
بے وفا آنکھوں کو حاصل باوفا سا خواب ہے
ایک منظر کو مکمل دیکھتا ہے کون اب
کوئی سنتا ہے کہاں کیا گونجتا سا خواب ہے
ناگ ہے سایہ فگن سر پر ہوں میں محو خرام
مجھ اپاہج کو میسر شنکر آسا خواب ہے
شاعری میں انفس و آفاق مبہم ہیں ابھی
استعارہ ہی حقیقت میں خدا سا خواب ہے
خام ہے کاوشؔ ہمارا خواب دن میں دیکھنا
شیخ چلی اور سب کا بے تکا سا خواب ہے
غزل
سو رہا ہوں میں کہ یہ جاگا ہوا سا خواب ہے
کاوش بدری