EN हिंदी
شیر شیاری | شیح شیری

شیر

34 شیر

غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے
مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے

اظہر عنایتی




ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا

بشیر بدر




میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا

بیخود دہلوی




اس کو سمجھو نہ خط نفس حفیظؔ
اور ہی کچھ ہے شاعری سے غرض

حفیظ جونپوری




بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

حیدر علی آتش




ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حسرتؔ موہانی




شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

حسرتؔ موہانی