EN हिंदी
شیر شیاری | شیح شیری

شیر

34 شیر

سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا

عبید اللہ علیم




اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر




چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ

پریم بھنڈاری




دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر لدھیانوی




رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت

شیخ ابراہیم ذوقؔ




راہ مضمون تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے باب سخن

ولی محمد ولی