اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا
دیکھو ہم نے پیٹ کی خاطر کیا کیا کاروبار کیا
اس بستی کے لوگ تو سب تھے چلتی پھرتی دیواریں
ہم نے رنگ لٹاتی شب سے اجلے دنوں سے پیار کیا
ذہن سے اک اک کر کے تیری ساری باتیں اتر گئیں
کبھی کبھی تو وقت نے ہم کو ایسا بھی ناچار کیا
اپنا آپ بھی کھویا ہم نے لوگوں سے بھی چھوٹا ساتھ
اک سائے کی دھن نے ہم کو کیسے کیسے خار کیا
سارے عہد کا بوجھ تھا سر پر دل میں سارے جہاں کا غم
وقت کا جلتا ابلتا صحرا ہم نے جس دم پار کیا
جاگتی گلیوں اونچے گھروں میں زرد اندھیرا ناچتا ہے
جس لمحے سے ہم ڈرتے تھے اس نے آخر وار کیا
شام کی ٹھنڈی آہوں میں بھی تیری خوشبو شامل تھی
رات گئے تک پیڑوں نے بھی تیرا ذکر اذکار کیا
غزل
اونے پونے غزلیں بیچیں نظموں کا بیوپار کیا
محمود شام