باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں
ان میں سے ایک بھی تو نہیں ہے کتاب میں
محرومیوں نے بزم سجائی ہے خواب میں
سب کے الگ الگ ہیں مناظر سراب میں
پانی کی طرح اہل ہوس نے شراب پی
لکھی گئی ہے تشنہ لبوں کے حساب میں
سب نام ہیں درست مگر واقعہ غلط
ہر بات سچ نہیں جو لکھی ہے کتاب میں
صد آتشہ اگر ہو ترا رنگ روپ ہے
جو رنگ پھول میں ہے نشہ ہے شراب میں
اس کا تو ایک لفظ بھی ہم کو نہیں ہے یاد
کل رات ایک شعر کہا تھا جو خواب میں
کچھ شعر شاید اس کو پسند آ گئے کمالؔ
ہونٹوں کے کچھ نشاں ہیں تمہاری کتاب میں
غزل
باتیں جو تھیں درست پرانے نصاب میں
کمال احمد صدیقی